-->

یہ بیج محمد اقبال (مرحوم) کے نام سے صدقہ جاریہ ہے

Tuesday, August 10, 2021

عاشوراء کے دن اورروزے کی فضیلت واہمیت

بسم الله الرحمن الرحیم

امام قرطبی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ: ’’لفظ عاشوراءمبالغہ اورتعظیم کےلئے ہےجولفظ عاشرہ سے معدول ہے۔ جب بھی لفظ عاشوراءبولا جائے اس سے محرم کی دسویں تاریخ کی رات مرادہوتی ہے‘‘۔

عاشوراءکادن بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل ہے، کیونکہ اسلامی تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ موٴرخین اس دن سے جڑے واقعات کے بارے میں لکھتے ہیں:

۱۔ اس دن آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔

۲۔ ۱سی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

۳۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

۴۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

۵۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’خلیل اللہ‘‘ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

۶۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

۷۔  اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

۸۔ اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

۹۔ ۱سی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

۱۰۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

۱۱۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

۱۲۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔

۱۳۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

۱۴۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

۱۵۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

۱۶۔ اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

۱۷۔ اسی دن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

۱۸۔ اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسولﷺاور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

۱۹۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس [اردو]: ج۱، ص۴۹۵-۴۹۶؛ معارف القرآن: پارہ نمبر۱۱، آیت ۹۸)

عاشوراءکےروزے کی فضیلت

’’حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ‘‘۔ ’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (شروع اسلام میں) رسول کریمﷺ نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو جس کا دل چاہتا اس دن روزہ رکھتا اور جو نہ چاہتا نہیں رکھا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۱)

’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ‘‘۔ ’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہﷺبھی رکھتے۔ پھر جب آپﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے یہاں بھی عاشوراءکے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھ‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۲)

’’حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ، إِلاَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ‏.‏ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺکو سوا عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۶)

’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ـ رضى الله عنهما ـ يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ "هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يُكْتَبْ عَلَيْكُمْ صِيَامُهُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ"‘‘۔ ’’حضرت حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے عاشوراء کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر گئے، میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ رہے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۳)

’’حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ "مَا هَذَا"۔ قَالُوا هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى۔ قَالَ "فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ"۔ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺمدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپﷺنے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپﷺنے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپﷺنے فرمایا! پھر موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپﷺنے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۴)

’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلاَنُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ‏ "صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ"‘‘۔ ’’حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: "عاشوراء کا روزہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دے گا"‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۲، کتاب الصيام، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۱۷۳۸)

’’وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، بْنَ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - يَقُولُ حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ"۔ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺنے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپﷺنے ارشاد فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۲، کتاب الصيام، باب أَىُّ يَوْمٍ يُصَامُ فِي عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۶۶۶)

رسول اﷲﷺنے اگلاسال آنے پرنویں تاریخ کاروزہ رکھنے کااس لئے فرمایاتاکہ یہودونصاریٰ سے مشابہت باقی نہ رہے، لہٰذا علماءِ احناف نے اس کی یہ صورت بیان فرمائی ہے، جیساکہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اﷲلکھتے ہیں کہ:

’’عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:۱۔ نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں دنوں کا روزہ رکھا جائے،۲۔ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے، ۳۔ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں سب سے پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے‘‘ ۔ (معارف السنن: ج۵، ص۴۳۴)


Saturday, July 24, 2021

ذی الحجہ کےدنوں میں تکبیرات کہنےکی فضیلت

بسم الله الرحمن الرحیم

ذوالحجہ کے ابتدائی ۹ دنوں میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے،  بازاروں میں اوردوسری جگہوں پرتکبیرات کہنا مستحب عمل ہے۔

’’وجاء عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عن النبي ما مِن أيَّامٍ أَعظَمَ عِندَ اللهِ، ولا أَحَبَّ إلَيهِ مِنَ العملِ فيهِنَّ مِن هذِه الأَيَّامِ العَشرِ؛ فأَكثِرُوا فيهِنَّ مِنَ "التَّهليلِ"، وهو قَولُ: لا إلهَ إلَّا اللهُ "والتَّكْبيرِ"، وهو قَولُ: اللهُ أكبَرُ "والتَّحْميدِ"، وهو قَولُ: الحَمدُ للهِ"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلہ میں کوئی اور ایام ایسے نہیں ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو نیک عمل ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں اس لئے تم لوگ ان دنوں میں کثرت سے تہلیل ( لا لہ لا اللہ ) تکبیر ( اللہ اکبر ) اور تحمید ( الحمد للہ ) کا ورد کیا کرو‘‘۔ (مسند أحمد: ج۳، ص ۲۴۱، رقم الحدیث ۵۴۴۶؛ شعب الایمان ، ج: ٥ ، ص: ٣٠٨)

’’وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ، وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا۔ وَكَبَّرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ خَلْفَ النَّافِلَةِ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور تکبیریں بلند کرتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل جاتے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۲، كتاب العيدين، باب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ص ۱۳۲)

’’وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَبِّرُ فِي قُبَّتِهِ بِمِنًى فَيَسْمَعُهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ، فَيُكَبِّرُونَ وَيُكَبِّرُ أَهْلُ الأَسْوَاقِ، حَتَّى تَرْتَجَّ مِنًى تَكْبِيرًا۔ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكَبِّرُ بِمِنًى تِلْكَ الأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ، وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ، وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْكَ الأَيَّامَ جَمِيعًا۔ وَكَانَتْ مَيْمُونَةُ تُكَبِّرُ يَوْمَ النَّحْرِ۔ وَكُنَّ النِّسَاءُ يُكَبِّرْنَ خَلْفَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزَ لَيَالِيَ التَّشْرِيقِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ‘‘۔ ’’حضرت عمررضی اﷲعنہ منیٰ میں اپنے خیمہ میں تکبیریں بلند کرتے جسے مسجد کے لوگ سنتے اور تکبیریں کہتے اور بازار والے بھی تکبیریں کہناشروع کردیتے حتیٰ کہ منیٰ تکبیروں سے گونج اٹھتا۔ حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ  اِن دِنوں میں منیٰ میں تکبیریں کہتے اور ان کی تکبیریں کہنے کا یہ سلسلہ نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں اور چلتے پھرتے، سارے دِنوں میں جاری رہتا۔ اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اﷲعنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مرودوں کے ساتھ تکبیرکہاکرتی تھیں‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۲، كتاب العيدين، باب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ص ۱۳۳)

ہرمسلمان مردوعورت پر۹ذی الحجہ کی فجرکی نماز سے ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک ہرفرض نماز کے بعدایک مرتبہ یہ تکبیرات پڑھنا واجب ہے۔

’’حدثنا أبوبکر، قال حدثنا حسین بن علي، عن زائدة، عن عاصم، عن شقیق، وعن علي بن عبد الأعلیٰ، فعَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قال: كَانَ عَلِيٌّ رضي الله عنه يُكَبِّرُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَيُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرِ‘‘۔ ’’جناب شقیق رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اﷲعنہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعدتکبیر کہتے، ایامِ تشریق کے آخر تک نماز عصر تک اورعصر کے بعد تکبیر کہتے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۱، رقم الحدیث ۱۱۱۳؛ مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، ص۳۱۸، رقم ۵۶۷۷)

’’فحدثني أبوبکر محمد بن أحمد بن بالویہ ثنا عبد اﷲ بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا یحیی بن سعید ثنا الحکم بن فروخ عن ابن عباس أنه کان یکبر عن غداة عرفة إلی صلوة العصر من آخر أیام التشریق‘‘۔ ’’جناب حکم بن فروخ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کے آخر تک، عصر کی نماز تک تکبیر پکارتے تھے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۷، رقم الحدیث ۱۱۱۴)

’’فأخبرناہ أبویحیٰی أحمد بن محمّد السمرقندي ثنا مُحمّد بن نصر ثنا یحیٰی بن یحیٰی أنبأ هیثم عن أبي جناب عن عُمیر بن سعید قال:قدم علینا ابن مسعود فکان یکبر من صلوٰة الصبح یوم عرفة إلیٰ صلوٰة العصر من آخر أیام التشریق‘‘۔ ’’جناب عمیر بن سعید رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ابن مسعود رضی اﷲعنہ تشریف لائے، پس وہ یومِ عرفہ کے دن صبح کی نما زسے ایامِ تشریق کے آخر، نمازِ عصر تک تکبیرات پکارتے تھے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۷، رقم الحدیث ۱۱۱۵)

’’فأخبرني أبوبکر محمد بن أحمد بن بالویہ ثنا عبداﷲ بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا محمد بن جعفر ثنا شعبة بن الحجاج قال سمعت عطاء یحدث عن عبید بن عمیر قال: کان عمر بن الخطاب یکبر بعد صلوٰة الفجر من یوم عرفة إلی صلوٰة الظھر من آخر أیام التشریق‘‘۔ ’’جناب عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اﷲعنہ عرفہ کے دن نمازِ فجر کے بعد سے تکبیر کہتے، یہاں تک کہ وہ ایام تشریق کے آخر تک، ظہر کی نماز تک تکبیر کہتے تھے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۷، رقم الحدیث ۱۱۱۲)

’’حضرت علی اورحضرت عمار رضی اﷲعنہما روایت کرتے ہیں کہ: رسول اﷲﷺفرضی نمازوں میں بسم اﷲالرحمٰن الرحیم بلندآواز سے پڑھاکرتےتھےاور آپﷺفجرکی نمازمیں دعائے قنوت پڑھتے اورعرفہ کے دن فجرکی نماز سے تکبیرات تشریق شروع کرتے اورایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز میں ختم کردیتے‘‘۔ (المستدرک اللصحیحین: ج۱، کتاب الصلوٰۃ العیدین، ص۶۰۵-۶۰۶، رقم الحدیث ۱۱۱۱)

’’حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن أبي بكار، عن عكرمة، ابن عباس رضي الله عنهما: أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، لاَ يُكَبِّرُ فِي الْمَغْرِبِ: اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲبن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عرفہ کے دن نماز فجر کی صبح سے تشریق کے آخری دن تک تکبیر کہتے تھے، اور مغرب میں نہیں کہتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، ص۳۱۸، رقم ۵۶۹۲)

’’من طريق زُهَيْر، عن أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهُ: «كَانَ يُكَبِّرُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَيَقْطَعُ صَلَاةَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، يُكَبِّرُ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ»، قَالَ: "وَكَانَ يُكَبِّرُ: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔’’حضرت عبداﷲرضی اﷲعنہ عرفہ کی صبح، فجر کی نماز کے بعد تکبیر کہتے، پھر وہ برابر کہتے رہتے تھے یہاں تک کہ امام ایام تشریق کے آخر ی دن عصر کی نماز پڑھاتا، پھر وہ عصر کے بعد تکبیر پکارتے‘‘۔(مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، رقم ۵۶۹۷)

’’حدثنا أبو الأحوص عن أبي إسحاق عن الأسود قال: كَانَ عَبْدُ اللهِ يُكَبِّرُ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ مِنَ يوم النَّحْرِ، يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لاَ إلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔ ’’حضرت اسودرحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ: حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ یوم عرفہ کی نماز فجرسے یوم نحرکی نماز عصرتک تکبیرات کہاکرتےتھے۔ جن کے کلمات یہ تھے: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لاَ إلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔(مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، ص۳۱۶، رقم ۵۶۷۹)

مردوں کے لئے اونچی آواز میں تکبیرکہنا مستحب ہے، جیساکہ حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور ابوہریرہ ؓسے ثابت ہے جبکہ عورتیں یہ تکبیرات آہستہ آواز میں کہیں گی۔