-->

یہ بیج محمد اقبال (مرحوم) کے نام سے صدقہ جاریہ ہے

Friday, June 11, 2021

مرحومین کے لئے دعائے مغفرت۔

بسم الله الرحمن الرحیم

بعض باطل فرقے جیساکہ پرانے زمانے میں معتزلہ اورموجودہ دورکے منکرین حدیث نےمیت کے ایصال ثواب کے سلسلے میں قرآن کی آیت کے عموم سے استدلال کیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے:

 {وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی}۔ ’’اور انسان ہی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی‘‘۔ [سورۃالنجم: ۵۳:۳۹]

ان کامانناہےکہ یہ نص قرآن ہے جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کوبروز قیامت اس کےاپنےاعمال پرجزا ملے گی جو اس نے خود کئے ہونگے۔ اگران کی اس بات کوتسلیم کرلیاجائے توقرآن کی ان آیات اورذیل میں درج درجنوں احادیث کا انکار لازم آتاہےکیونکہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے خود ہمیں والدین اوراپنے مومن بھائیوں کے لئے دعائے مغفرت سکھائی ہیں اوررسول اﷲﷺ نے خودہمیں مرحومین کی طرف سے ایصال ثواب اوردعائے مغفرت کرنے کی ترغیب دی ہے۔

جیساکہ اﷲرَبّ العزت نےخودقرآن کریم میں ہمیں والدین کے لیے مغفرت ورحمت طلب کرنےکی دعا سکھائی ہے:

{رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیرًا}۔ ’’اے اللہ ان پر اس طرح رحمت فرما، جیسے بچپن میں انہوں نے مجھے شفقت سے پالا‘‘۔ [سورۂ بنی اسرائیل:۱۷: ۲۴]

یہ دعا صرف والدین کی زندگی ہی میں نہیں بلکہ ان کے دنیاسے رخصت ہونے کے بعدبھی مانگی جاسکتی ہیں بلکہ ان کے دنیاسے جانے کے بعدانہیں ہماری دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اسی طرح اﷲرَبّ العزت نےخودقرآن کریم میں ہمیں تمام مومنین کے لیے مغفرت کی دعا سکھائی ہے:

{رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ}۔ ’’اے اللہ ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے سبقت کی‘‘۔ [سورۃالحشر:۵۹:۱۰]

جمہورائمہ کرامؒ نے معتزلہ اورمنکرین کی پیش کردہ آیت کے جواب میں کئی وجوہات بیان فرمائی ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہےکہ سورۃ النجم کی آیت منسوخ ہے اوراس کی ناسخ یہ آیت مقدسہ ہے:

{وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ کُلُّ امۡرِیًٔۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیۡنٌ}۔ ’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے‘‘۔ [سورۃ الطور:۵۲:۲۱]

مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ والدین کی نیکی کے سبب اولاد جنت میں داخل ہوگی۔

دوسری وجہ علماءکرامؒ نےیہ بیان فرمائی ہےکہ سورۃ النجم کی مندرجہ بالاآیت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت موسیٰ کلیم اﷲعَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کے لئے ہےجبکہ امت مسلمہ کے لئے حضرت عکرمہ رحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ: ’’اس امت کے لئے وہ ہےجواس نے کوشش کی اوروہ بھی جس کی اس کےلئے کوشش کی گئی‘‘۔

تیسری وجہ حضرت سیدنا ربیع بن انس رحمہ اﷲبیان کرتے ہیں کہ: ’’اس آیت طیبہ میں انسان سے مراد کافرہیں جبکہ مومن کے لیے تو اس کی اپنی کوشش اوراس کے لئے کی گئی کوشش بھی ہے‘‘۔

تیسری وجہ حضرت حسین بن فضل رحمہ اﷲبیان فرماتے ہیں کہ: ’’آدمی اپنی ہی کوشش سے پائے گایہ توعدل کی صورت میں ہےجبکہ فضل کی صورت میں جس کےلئے اﷲتعالیٰ جتناچاہے زیادہ عطافرمادے‘‘۔

اورپانچویں دلیل تواﷲربّ العزت نےقرآن مجیدمیں سورۃ الکھف کی ان آیات میں واضح طورپر بیان فرمائی ہے:

{وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ؕ ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا}۔ ’’دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں‘‘۔ [سورۃ الکھف: ۱۸: ۸۲]

حضرت سیدنا خضرعَلَیْہِ السَّلَام نے یتیم بچوں کی دیوار کو اس لیے درست کر دیا تھا کہ ان کاباپ ایک نیک و صالح شخص تھا۔ معلوم ہوااللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے نیک بندوں کی وجہ سے ان سے وابستہ لوگوں پر بھی بے انتہا کرم فرماتا ہے۔

اتنے واضح دلائل کےبعدبھی اگرکوئی شخص یافرقہ مرحومین کےلئےدعائے مغفرت اورایصال ثواب کاانکارکرتاہے تواس کے گمراہ ہونے میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

۱۔ ’’حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَخْبَرَهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَعَى لَهُمُ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الْحَبَشَةِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَقَالَ "اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ"‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دے دی تھی جس دن ان کا انتقال ہوا تھا اور آپﷺنے فرمایا تھا کہ اپنے بھائی کی مغفرت کے لئے دعا کرو‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۵، کتاب مناقب الأنصار، باب مَوْتُ النَّجَاشِيِّ، رقم الحدیث ۳۸۸۰)

۲۔ ’’حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ، عَنْ هَانِئٍ، مَوْلَى عُثْمَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ "اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ"۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ بَحِيرُ بْنُ رَيْسَانَ‘‘۔ ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۳، کتاب الجنائز، باب الاِسْتِغْفَارِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِلْمَيِّتِ فِي وَقْتِ الاِنْصِرَافِ، رقم الحدیث ۳۲۲۱)

۳۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ـ صلى الله عليه وسلم ـ قَالَ "الْقِنْطَارُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ أُوقِيَّةٍ كُلُّ أُوقِيَّةٍ خَيْرٌ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ"۔ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَنَّى هَذَا فَيُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ"‘‘۔ ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا) اس کو جواب دیا جائے گا: تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۵، کتاب الأدب، باب بِرِّ الْوَالِدَيْنِ، رقم الحدیث ۳۶۶۰)

۴۔ ’’وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ»۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲعنہابیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میت قبر میں ڈوبنے والے غوطہ کھانے والے کے مثل ہوتے ہیں۔ وہ دعا کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پھر جب اس کو کوئی دعا پہنچتی ہے، تو وہ اس کے لیے دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ قبر والوں کو زمین والوں کی دعا کی وجہ سے پہاڑ کے مانند ثواب پہنچاتا ہے۔ اور بے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کے لیے استغفار کی دعا مانگنا ہے‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح للالبانی: ج۲، كتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة - الفصل الثالث، رقم الحدیث ۲۳۵۵؛ أخرجه البيهقي في "شعب الإيمان": ج۶، ص۲۰۳، رقم الحدیث٧٩٠٥)