-->

یہ بیج محمد اقبال (مرحوم) کے نام سے صدقہ جاریہ ہے

Tuesday, August 10, 2021

عاشوراء کے دن اورروزے کی فضیلت واہمیت

بسم الله الرحمن الرحیم

امام قرطبی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ: ’’لفظ عاشوراءمبالغہ اورتعظیم کےلئے ہےجولفظ عاشرہ سے معدول ہے۔ جب بھی لفظ عاشوراءبولا جائے اس سے محرم کی دسویں تاریخ کی رات مرادہوتی ہے‘‘۔

عاشوراءکادن بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل ہے، کیونکہ اسلامی تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ موٴرخین اس دن سے جڑے واقعات کے بارے میں لکھتے ہیں:

۱۔ اس دن آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔

۲۔ ۱سی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

۳۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

۴۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

۵۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’خلیل اللہ‘‘ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

۶۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

۷۔  اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

۸۔ اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

۹۔ ۱سی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

۱۰۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

۱۱۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

۱۲۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔

۱۳۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

۱۴۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

۱۵۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

۱۶۔ اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

۱۷۔ اسی دن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

۱۸۔ اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسولﷺاور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

۱۹۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس [اردو]: ج۱، ص۴۹۵-۴۹۶؛ معارف القرآن: پارہ نمبر۱۱، آیت ۹۸)

عاشوراءکےروزے کی فضیلت

’’حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ‘‘۔ ’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (شروع اسلام میں) رسول کریمﷺ نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو جس کا دل چاہتا اس دن روزہ رکھتا اور جو نہ چاہتا نہیں رکھا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۱)

’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ‘‘۔ ’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہﷺبھی رکھتے۔ پھر جب آپﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے یہاں بھی عاشوراءکے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھ‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۲)

’’حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ، إِلاَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ‏.‏ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺکو سوا عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۶)

’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ـ رضى الله عنهما ـ يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ "هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يُكْتَبْ عَلَيْكُمْ صِيَامُهُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ"‘‘۔ ’’حضرت حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے عاشوراء کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر گئے، میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ رہے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۳)

’’حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ "مَا هَذَا"۔ قَالُوا هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى۔ قَالَ "فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ"۔ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺمدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپﷺنے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپﷺنے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپﷺنے فرمایا! پھر موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپﷺنے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۰۰۴)

’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلاَنُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ‏ "صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ"‘‘۔ ’’حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: "عاشوراء کا روزہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دے گا"‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۲، کتاب الصيام، باب صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۱۷۳۸)

’’وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، بْنَ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - يَقُولُ حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ"۔ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺنے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپﷺنے ارشاد فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۲، کتاب الصيام، باب أَىُّ يَوْمٍ يُصَامُ فِي عَاشُورَاءَ، رقم الحدیث ۲۶۶۶)

رسول اﷲﷺنے اگلاسال آنے پرنویں تاریخ کاروزہ رکھنے کااس لئے فرمایاتاکہ یہودونصاریٰ سے مشابہت باقی نہ رہے، لہٰذا علماءِ احناف نے اس کی یہ صورت بیان فرمائی ہے، جیساکہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اﷲلکھتے ہیں کہ:

’’عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:۱۔ نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں دنوں کا روزہ رکھا جائے،۲۔ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے، ۳۔ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں سب سے پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے‘‘ ۔ (معارف السنن: ج۵، ص۴۳۴)