-->

یہ بیج محمد اقبال (مرحوم) کے نام سے صدقہ جاریہ ہے

Tuesday, July 13, 2021

یوم عرفہ یعنی ۹ ذلحج کا روزہ رکھنے کی فضیلت

بسم الله الرحمن الرحیم

’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلاَنَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "‏صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ"۔ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَقَدِ اسْتَحَبَّ أَهْلُ الْعِلْمِ صِيَامَ يَوْمِ عَرَفَةَ إِلاَّ بِعَرَفَةَ‘‘۔ ’’حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا ثواب اللہ تعالیٰ یہ دے گا کہ اگلے پچھلے ایک سال کے گناہ بخش دے گا۔ امام ترمذیؒ کہتے ہیں: ابوقتادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، اہل علم نے عرفہ کے دن کے روزے کو مستحب قرار دیا ہے، مگر جو لوگ عرفات میں ہوں ان کے لیے مستحب نہیں‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۳، کتاب الصیام، باب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، رقم الحدیث ۱۱۶۲؛ جامع الترمذی: ج۱، كتاب الصوم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ صَوْمِ عَرَفَةَ، رقم الحدیث ۷۴۹؛ سنن ابن ماجہ: ج۱، كتاب الصوم، باب صِيَامِ يَوْمِ عَرَفَةَ، رقم الحدیث ۱۷۳۰)

حاجیوں کےلئےعرفہ کے دن کا روزہ رکھنا مستحب نہیں ہے، اس لیے کہ نبی ﷺنے اس دن کا روزہ ترک کیا تھا، اوراحادیث میں یہ بھی مروی ہے کہ نبی ﷺنے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، لہٰذا حاجیوں کے علاوہ باقی سب لوگوں کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے۔

آج کل لوگوں میں ایک عجیب بحث چھڑ گئی ہے کہ چونکہ احادیث میں عرفہ کے دن کا روزہ لکھا ہے نہ کہ ۹ ذالحج کا اور عرفہ کا تعلق وقوفِ عرفات سے ہے اور وقوف ہمارے پاکستان کی اسلامی تاریخ کےاعتبار سے ۸ ذوالحجہ کو ہو گا؛ لہٰذا ہمیں اپنے پاکستان کی اسلامی تاریخ ۹ ذو الحجہ کے بجائے سعودیہ کا اعتبار کرتے ہوئے ۸ ذو الحجہ کو یوم عرفہ کاروزہ رکھنا چاہیے۔ یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ حدیث میں یوم عرفہ کے بجائے ۹ ذالحج کے الفاظ بھی واضح طورپرملتے ہیں۔

درج ذیل حدیث میں یوم عرفہ کے بجائےنو (۹) ذی الحجہ کے الفاظ مذکور ہیں:

’’حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ بَعْضِ، أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ وَثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ‘‘۔ ’’ہنیدہ بن خالد کی بیوی سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کی کسی بیوی سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ذی الحجہ کے (شروع) کے نو (۹) دنوں کا روزہ رکھتے، اور یوم عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ رکھتے نیز ہر ماہ تین دن یعنی مہینے کے پہلے پیر (سوموار، دوشنبہ ) اور جمعرات کا روزہ رکھتے‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۲، کتاب الصوم، باب فِي صَوْمِ الْعَشْرِ، رقم الحدیث۲۴۳۷)

۹ ذی الحجہ کو یومِ عرفہ کہنے کی فقہاء نے تین وجوہات بیان کی ہیں:

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آٹھ(۸) ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا، پھرنو(۹)ذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سےہی ہے،  چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کویہ معرفت اور یقین نو(۹)ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو (۹) ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔

۲۔ نو (۹)  ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل  علیہ السلام نےحضرت ابراہیم  علیہ السلام کوتمام "مناسکِ حج" سکھلائے تھے، مناسکِ حج کی معرفت کی مناسبت سے نو(۹)ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔

۳۔ نو(۹) ذی الحجہ کو حج کرنے والے حضرات چونکہ میدانِ عرفات میں وقوف کے لیے جاتے ہیں، تو اس مناسبت سے نو(۹)ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" بھی کہاجاتاہے۔

مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ تسمیہ کے اعتبار سے’یومِ عرفہ‘کوصرف وقوفِ عرفہ کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف وجوہات کی بنا پر (۹)ذی الحجہ کادوسرا نام ہے، لہٰذا یہ دن ہر ملک میں اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہوگا،یعنی دیگر ممالک میں جس دن نو(۹) ذی الحجہ ہوگی وہی دن ’یومِ عرفہ ‘کہلائے گا، خواہ اس دن سعودی عرب میں یومِ عرفہ ہویا نہ ہو۔