-->

یہ بیج محمد اقبال (مرحوم) کے نام سے صدقہ جاریہ ہے

Monday, June 21, 2021

میت کی طرف سےقرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

بسم الله الرحمن الرحیم

موجودہ دورمیں ہمارے معاشرے میں جہاں شادی بیاہ اوردیگرتقریبات کے موقع پربہت سی بدعات وغلط رسم ورواج پائے جاتےہیں وہاں میت کےموقع پر تیجہ یاقل، دسواں، بیسواں، چالیسواں اوربرسی کے نام پرمسجد سے اجرت پربچوں کوبلاکرقرآن مجید پڑھوانےجیسے اعمال بھی کیئے جاتے ہیں جن کی شریعت میں ہمیں نہ توکوئی دلیل ملتی ہے اورناہی سلف صالحین کے دورمیں ایسی کوئی مثال ملتی ہے اورویسے بھی دسواں، بیسواں، چالیسواں اوربرسی کرناتوواضح طورپرہندوانہ رسومات ہیں جن کا شریعت سےدورکابھی کوئی تعلق نہیں۔ ہم خودبھی معاشرے میں رائج ایسے رسم ورواج کی شدیدمزمت کرتے ہیں اورمسلمان بھائیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ایسے غلط اورہندوانہ رسم رواج کی شدید مخالفت کی جائےتاکہ ہمارامعاشرہ بدعات وغلط رسم ورواج سے پاک ہوسکے۔ لیکن اس کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ میت کےلئے اس کےلواحقین کی طرف سے تلاوت قرآن پاک کےذریعہ ایصال ثواب کرنابھی کوئی بدعت عمل ہے، کیونکہ میت کےایصال ثواب کےلئے تلاوت قرآن پڑھنےکی ہمیں احادیث مبارکہ سے بھی دلیل ملتی ہےاورسلف صالحین کے دورمیں بھی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے اس عمل کے جائزہونے کی دلیل ملتی ہے۔

بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ میت کی طرف سے قرآن مجید کی تلاوت کرناثابت نہیں ہے لہٰذا میت کی طرف سے قرآن پڑھناجائز نہیں بلکہ بدعت عمل ہے۔ اوراپنے اس مؤقف کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ:

’’نبی ﷺکی زندگی میں آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپ کی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ ﷺنے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص انکی طرف سے قربانی، روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرامؓ کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرامؓ ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔ اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں‘‘۔

رسول اﷲﷺ نے اپنی آل اوراپنی امت کے لئے مینڈھے کی قربانی کی ہے:

’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ فَأُتِيَ بِهِ فَضَحَّى بِهِ فَقَالَ "يَا عَائِشَةُ هَلُمِّي الْمُدْيَةَ"۔ ثُمَّ قَالَ "اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ"۔ فَفَعَلَتْ فَأَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ وَذَبَحَهُ وَقَالَ "بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ"۔ ثُمَّ ضَحَّى بِهِ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو، سینہ، پیٹ اور پاؤں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ ﷺنے فرمایا: عائشہ چھری لاؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو، تو میں نے چھری تیز کی، آپ ﷺنے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا : «بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد»، «اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرما»پھر آپﷺنے اس کی قربانی کی‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۲، كتاب الأضاحى ، باب اسْتِحْبَابِ الضَّحِيَّةِ وَذَبْحِهَا مُبَاشَرَةً بِلاَ تَوْكِيلٍ وَالتَّسْمِيَةِ وَالتَّكْبِيرِ ، رقم الحدیث ۱۹۶۷؛ سنن ابی داؤد: ج۲، كتاب الضحايا، باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَايَا، رقم الحدیث ۲۷۹۲)

مندرجہ بالاحدیث سے معلوم ہواکہ رسول اﷲﷺنے اپنی پوری امت کو ایصال ثواب کرنے کے لیے قربانی فرمائی تھی۔

سب سے پہلےمیں ان حضرات سے یہ سوال کرتاہوں کہ جن اعمال سےمیت تک ثواب پہنچنے کااستثناءاحادیث میں موجودہے جیسےکہ حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقات وخیرات اوردعائے مغفرت وغیرہ، توکیاآپ ﷺسےان اعمال کےذریعہ اپنی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا اورصاحبزادیوں رضی اللہ عنہا تک ثواب پہنچانے کی کوئی دلیل ملتی ہے؟ حالانکہ رسول اﷲﷺ نے صحابہ کرامؓ کو خود ان اعمال کو میت کی طرف سے کرنے کاحکم فرمایا؟ جب رسول اﷲﷺکاخودمیت کی طرف سے ان اعمال کوکرنے کی دلیل نہیں ملتی تو پھرمیت کےلئےقرآن مجیدپڑھنےپرہم سے حدیث سےاستثناءکامطالبہ کرناہی بالکل بے بنیاد ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ اصول ہی بالکل غلط اوربے بنیاد ہے کہ ہرعمل کے جائزہونےکےلئے حدیث میں اس عمل کانام دکھانے کامطالبہ کیاجائے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ ہم ایسے بہت سے جانوروں اورپرندوں کوحلال قراردیکر ان کا گوشت استعمال کرتےہیں جن کی حلت کاذکرقرآن وحدیث میں ان جانوروں کے نام کے ساتھ موجودنہیں ہے، جیساکہ بھینس، بارہ سینگا، تیتر، یابٹیروغیرہ۔ اب اگرکوئی ہم سے یہ تقاضہ کرے کہ ان جانوروں یاپرندوں کے نام قرآن وحدیث میں دکھاؤ، تب یہ جانورحلال قرارپائیں گےتوہم ان سے کہیں گے کہ قرآن وحدیث ہمیں ہرعمل کےلئےاصول وضابطہ بیان کرتےہیں، ہرعمل اورشئے کانام بیان نہیں کرتے۔ جیساکہ شریعت نےیہ قائدہ کلیہ بیان کردیاکہ ہرنشہ آور چیزحرام ہے، جبکہ قرآن وحدیث میں صرف شراب کی حرمت کانام لےکربیان ملتاہے، ہرنشہ آورشئے کانام نہیں بیان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہراس شئے کوحرام قراردیتے ہیں جس میں نشہ پایاجاتاہے۔

بالکل اسی طرح سےایصال ثواب کی تمام احادیث سے ہمیں اس اصول کاپتہ چلتاہے کہ میت کی طرف سےاس کے لواحقین وہ تمام اعمال کرسکتے ہیں جوکہ اس کی زندگی میں اس پرفرض یاواجب تھےلیکن مرنے والاانہیں اپنی زندگی میں ادانہ کرسکاہو، لہٰذا میت کے لواحقین اس کی طرف سے ان فرائض وواجبات کی ادائیگی کرسکتےہیں۔ جیساکہ رسول اﷲﷺکافرمان ہےکہ: ’’اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے‘‘۔ اب ضروری نہیں کہ احادیث میں جن اعمال کانام لیاگیاہے، میت کی طرف سے صرف وہی اعمال کیئے جاسکتے ہیں بلکہ ہروہ عمل کیاجاسکتاہے جوکہ میت کی زندگی میں اس پرقرض رہ گیاہو۔

اسی طرح سے احادیث میں میت کی طرف سے نفلی عبادات کرنے کابھی ذکرموجود ہے، جیساکہ صدقات وخیرات۔ تلاوت قرآن پاک بھی نفلی عبادت ہےجس کا مقصد میت کےلئے ایصال ثواب کرناہے، لہٰذا میت کے لئے تلاوت قرآن پاک کوصدقات وخیرات پرقیاس کیاجاسکتاہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ کسی عمل کو فرض وواجب قراردینے کیلئے تو نص صریح اورنص جدید کا مطالبہ کیاجاسکتاہے لیکن کسی چیز کے جواز کیلئے نص صریح کا مطالبہ نہیں کیاجاسکتابلکہ اگراس سلسلے میں یہ کہاجائے کہ ممانعت کا نہ ہوناہی جواز کی وجہ ہے تو وہ درست ہے۔ اگرمانعین کا استدلال اس سے ہے کہ حضورپاک ﷺاورصحابہ کرامؓ سے اس عمل کا کرناثابت نہیں ہے توہمارابھی استدلال اسی سے ہے کہ حضورپاک ﷺاور صحابہ کرامؓ سے اس کی ممانعت بھی ثابت نہیں ہے۔

میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن مجیدکاپڑھنا قیاس کی روسے بھی ثابت ہوتاہے جبکہ اس عمل کے جائزقرارپانے کے لئے ہمیں قیاس کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ احادیث مبارکہ میں ہمیں اس کی دلیل ملتی ہےجنہیں ہم نے ذیل میں تفصیل سےبیان کردیاہے۔

’’حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ "قَالَ اللَّهُ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي"‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میر ے متعلق رکھتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: كتاب التوحيد، باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى [يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ]، رقم الحدیث ۷۵۰۵)

’’عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: قَالَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالیَ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْیَظُنَّ بِي مَا شَاء۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ‘‘۔ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہےکہ میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اسکے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، اگروہ میرے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے تو میرا معاملہ اسکے ساتھ ویسا ہی ہے اور اگروہ میرے بارے برا گمان رکھتا تو معاملہ اسکے ساتھ ویسے ہی ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان: ج۲، ص۷۰۸، رقم الحدیث۶۳۹)

مندرجہ بالا احادیث سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم اﷲتبارک وتعالیٰ سے جس طرح کی امیت رکھیں گے، اﷲتعالیٰ ہمیں ویسے ہی عطافرمائیں گے۔ اب جولوگ اﷲتعالیٰ سے اس بات کاگمان رکھتے ہیں کہ ان کا اپنے مرحومین کےلئے قرآن مجیدکی تلاوت کرکے انہیں بخشنے پراﷲتعالیٰ ان مرحومین کوتلاوت کلام پاک کااجروثواب عطافرمائیں گےتوانشاءاﷲ! اﷲپاک کی رحمت سے ہمیں امیدہےکہ ہماراربّ ہمیں کبھی مایوس نہیں کریگا۔ اورجولوگ اﷲتعالیٰ سے ایسی امیدنہیں رکھتے گویاکہ وہ حدیث کے مطابق اﷲتعالیٰ ان کے ساتھ ویساہی معاملہ رکھیں گے۔ اب یہ آپ پرمنحصر ہے کہ آپ اﷲتعالیٰ سے کیساگمان رکھتے ہیں۔

۱۔ ’’وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَا تَحْبِسُوهُ وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ وَلْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ فَاتِحَةُ الْبَقَرَةِ وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ»۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَان۔ وَقَالَ: وَالصَّحِيح أَنه مَوْقُوف عَلَيْهِ‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺسے سناہے، فرماتے ہیں جس وقت کوئی آدمی تم میں سے فوت ہوجائے پس اس کوروکے نہ رکھواوراس کواس کی قبرکی طرف جلدی پہنچاؤ اوراس کے سر کے قریب یعنی سرہانے کھڑے ہوکرسورۃ بقرہ کاابتدائی حصہ " مفلحون" تک تلاوت کرواوراس کے پاؤں کے پاس کھڑے ہوکرسورۃ بقرہ کاآخری حصہ یعنی "امَنَ الرَّسُولُ" آخرتک پڑھو۔ امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں روایت کی ہےاورصحیح یہ ہے کہ یہ عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ پرموقوف ہے‘‘۔ (مشكاة المصابيح: ج۲، كتاب الجنائز، باب دفن الميت - الفصل الثالث، رقم الحدیث ۱۷۱۷)

مندرجہ بالا روایت امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں نقل کی ہےجس پرصرف اتنا اعتراض کیاجاسکتاہے کہ یہ روایت حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲعنہ پرموقوف ہے۔ اگرہم اس روایت کوابن عمررضی اﷲعنہ پرہی موقوف تسلیم کرلیں بت بھی ہمارے لئے ابن عمررضی اﷲعنہ کاقول وعمل حجت ہےجیساکہ ایک مشت داڑھی رکھنے کے مسئلے پرہمارے نزدیک ابن عمررضی اﷲعنہ کا عمل حجت ہے۔ 

۲۔ ’’عَبْد الرَّحْمَنِ بْن الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ لِي أَبِي: یَا بُنَیَّ اذَا أنَا مِتُّ فَالْحِدْنِیْ، فَاِذَا وَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلَیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ، ثُمَّ سَنَّ عَلَیَّ التُّرابَ سَنَّاً ثُمَّ اقْرَأ عِنْدَ رَأسِی بِفَاتِحَۃِ الْبَقْرَۃِ وَ خَاتِمِھَا، فَانِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ الْلّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ ذٰالِکَ‘‘۔ ’’حضرت عبدالرحمٰن اپنے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ لجلاج نے فرمایا۔ ائے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں، تو میرے لیے بغلی قبر کھودو۔ پھر جب مجھے قبر میں رکھو تو کہو "بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہ"۔ پھرمجھ پر آہستہ سے مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع اور اس کا آخری حصہ پڑھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے‘‘۔ (المعجم الکبیرللطبرانی: ج۱۲، ص۴۴۴، رقم الحدیث ۱۳۶۱۴)

اس روایت کی سند کے متعلق بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’أخرجه الطبراني بإسناد حسن‘‘۔ ’’امام طبرانیؒ نے اس کو سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے‘‘۔ (فتح الباری: باب السرعۃ بالجنازۃ)

اس روایت کی سند کے بارےمیں علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ موثقون‘‘۔ ’’اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اوراس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں‘‘۔ (مجمع الزوائد: ج۳، باب ما یقول عند ادخال المیت القبر، ص۴۴)

یہی روایت امام أبو بكر أحمد بن محمد الخَلَّال البغدادی الحنبلیؒ (المتوفى: ۳۱۱ھ) نے اپنی کتاب ’’القراءة عند القبور‘‘میں ان الفاظ میں نقل کی ہے:

۳۔ ’’وأخبرني العباس بن محمد بن أحمد بن عبد الكريم، قال: حدثني أبو شعيب عبد الله بن الحسين بن أحمد بن شعيب الحراني من كتابه قال: حدثني يحيى بن عبد الله الضحاك البابلتي، حدثنا أيوب بن نهيك الحلبي الزهري، مولى آل سعد بن أبي وقاص قال: سمعت عطاء بن أبي رباح المكي، قال: سمعت ابن عمر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا مات أحدكم فلا تجلسوا، وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه بفاتحة البقرة، وعند رجليه بخاتمتها في قبره"‘‘۔ ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے روکے نہ رکھو بلکہ اسے قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کی قبر پر اس کے سر کی جانب سورۃ فاتحہ اور اس کے پاؤں کی جانب سورۃبقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں‘‘۔ (القراۃٔ عند القبورلابی بکرالخلال: ص۲۹)

’’امام احمد ابن حنبل رحمہ اﷲکوجب تک اس میں کوئی روایت نہیں ملی، آپؒ اس کے قائل نہیں تھے لیکن جب آپ کوحضرت سیدنا عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ اور سیدنا عبدالرحمٰن بن علاءبن لجلاج رضی اﷲعنہ کی وہ مرفوع روایات پہنچیں جوہم نے «وقت دفن کی جانے والی تلقین کے بیان» میں ذکرکی ہیں توآپؒ نے رجوع فرمالیا‘‘۔ (القراءة عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

۴۔ ’’روی الامام الحافظ المحدث ابن ابی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْمُجَالِدِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: كَانَتِ الْأَنْصَارُ يَقْرَؤُونَ عِنْدَ الْمَيِّتِ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ‘‘۔ ’’امام شعبی رحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ  انصار فوت شدہ شخص کے قریب سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج۳، كتاب الجنائز، باب ما يقال عند المريض إذا حضر، ص۵۴۲، رقم الحديث ۱۰۹۵۳)

۵۔ ’’روی الامام الحافظ المحدث ابن ابی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أُمَيَّةَ الْأَزْدِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، «أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ عِنْدَ الْمَيِّتِ سُورَةَ الرَّعْدِ»‘‘۔ ’’حضرت امیہ ازدی رحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ  حضرت جابربن زیدرضی اﷲعنہ میت کے پاس سورۃ الرعدکی تلاوت فرماتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج۳، كتاب الجنائز، باب ما يقال عند المريض إذا حضر، ص۵۴۳، رقم الحديث ۱۰۹۵۷)

مصنف ابن ابی شیبۃ کی دونوں روایات کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

۶۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، - وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ - عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "اقْرَءُوهَا عِنْدَ مَوْتَاكُمْ"۔ يَعْنِي ‏{يسٓ}‘‘۔ ’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اپنے مردوں کے پاس اسے یعنی سورۃ يسٓ پڑھو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۱، کتاب الجنائز، باب مَا جَاءَ فِيمَا يُقَالُ عِنْدَ الْمَرِيضِ إِذَا حُضِرَ، رقم الحدیث ۱۴۴۸)

۷۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيٍّ الْمَرْوَزِيُّ، - الْمَعْنَى - قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، - وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ - عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: «اقرؤوا سُورَةَ ‏{‏ يس ‏}‏عَلَى مَوْتَاكُمْ»۔ وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْعَلاَءِ‘‘۔ ’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: تم اپنے مردوں پر سورۃ  يسٓ  پڑھو‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۲، كتاب الجنائز، باب الْقِرَاءَةِ عِنْدَ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث ۳۱۲۱)

امام قرطبیؒ نے اپنی سند سے حضرت انس کی روایت بیان کی ہے:

۸۔ ’’مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأ سُوْرَۃَ یٰسٓ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ کَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیْھَا حَسَنَاتٌ‘‘۔ ’’جو شخص قبرستان میں آئے ، پھر سورہ یٰسٓ پڑھے، تو اللہ تعالیٰ قبرستان والوں کےعذاب میں تخفیف فرمادیگا۔ اور اس کو اس قبرستان کے مردوں کی گنتی کے مطابق ثواب ملے گا‘‘۔ (تذکرۃ للقرطبی: باب ماجاءفی قراۃٔ القرآن عندالقبر، ص۸۰؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۱)

۹۔ ’’حضرت سیدناامام شعبی رحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ انصار کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا،تو وہ لوگ قبروں کی طرف سے متفرق ہوجاتے اور ان کے لیے قرآن پڑھتے‘‘۔ (القراءة عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

امام ابو محمد سمرقندی رحمہ اﷲنے سورۃ الاخلاص کے فضائل میں امیرالمومنین حضرت علی رضی اﷲعنہ سے مرفوعاً روایت بیان کی ہے:

۱۰۔ ’’عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات‘‘۔ ’’حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے، پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے، تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب عطا ہوگا‘‘۔ (فضائل سورۃ الاخلاص للحسن الخلال: ص۱۰۱، رقم الحدیث ۵۴؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

ابوالقاسم سعید بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعاً روایت لائے ہیں کہ:

۱۱۔ ’’مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتابِ، وَ قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحَدٌ، وَ ألْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، ثُمَّ قَالَ: ألْلّٰھُمَّ انِّیْ جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأتُ مِنْ کَلَامِکَ لَأھْلِ الْمَقابِرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ، کَانُوْا شُفَعَاءَ لَہُ الَیٰ الْلّٰہِ تَعَالیٰ‘‘۔ ’’جو شخص قبرستان میں داخل ہو۔ پھر سورہ فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے اور کہے کہ ائے اللہ! جو کچھ میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بخش دے، تو وہ تمام مردے اللہ کے حضور سفارشی ہوں گے‘‘۔ (أحاديث الشيوخ الثقات [الشهير بالمشيخة الكبرى قاضي المارستان]: ج۳، ص۱۳۶۳، رقم الحدیث ۷۰۷؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

۱۲۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اﷲلکھتے ہیں: ’’ہمارے متاخرین علماء سے سیدنا محب طبریؒ، "احیاالعلوم" میں حضرت امام غزالیؒ اور "العاقبہ" میں حضرت سیدنا عبدالحقؒ حضرت سیدناامام احمد ابن حنبل رحمہ اﷲسے نقل کرتے ہیں کہ:«جب تم قبرستان جاؤتو سورۂ فاتحہ، سورۂ اخلاص اورمعوذتین (یعنی سورۂ الفلق اورسورۂ الناس) پڑھ کراس کاثواب قبرستان والوں کو بخش دیا کروکیونکہ یہ انہیں پہنچتاہے»‘‘۔ (القراءة عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

’’امام زعفرانی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ: میں حضرت امام شافعیؒ سے قبرکے پاس تلاوت قرآن کرنےکے متعلق پوچھاتوانہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ (القراۃٔ عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

’’امام شرف الدین النووی رحمہ اﷲ شرح المہذب میں فرماتے ہیں کہ: قبرستان جانے والے کےلئے مستحب ہے کہ جتناہوسکے تلاوت قرآن کرےاورپھردعاکرے۔ حضرت امام شافعیؒ سے اس کی تصریح موجودہے اوران کے اصحاب کابھی اس پراتفاق ہے۔‘‘۔ (المجموع شرح المہذب: ج۵، یستجب للرجال زیارۃ القبور، ص۳۱۱؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

امام نوویؒ ایک اورجگہ لکھتے ہیں: ’’امام شافعیؒ ایک مقام پرفرماتے ہیں: اگرقبرکے پاس پوراقرآن پاک پڑھ لیاجائے توزیادہ بہترہے‘‘۔ (المجموع شرح المہذب: ج۵، یستجب ان یضع راس المیت عندرجل القبر، ص۲۹۴؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

مندرجہ بالاتمام احادیث کواگرضعیف مان لیاجائے توبھی میت کے ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک کی تلاوت کرنے کاجواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ تمام ائمہ کرامؒ کا اس بات پراجماع ہے کہ ضعیف احادیث کثرت ترک کی وجہ سے حسن درجہ کوپہنچ جاتی ہیں اورفضائل کے باب میں توویسے بھی ضعیف احادیث پرعمل کرناتمام ائمہ کرامؒ کے نزدیک جائزہے۔

میت کے ایصال ثواب کےلئے تلاوت قرآن پرائمہ اربعہ اوردوسرے مذاہب کامؤقف

مسلک احناف

۱۔ مشہورحنفی عالم عبد الله بن محمود بن مودود الموصلی ابوالفضل حنفی رحمہ اﷲ (المتوفی: ۶۸۳ھ) لکھتے ہیں: ’’مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ وَيَصِلُ‘‘۔ ’’اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے کسی بھی عمل کا ثواب دوسرے کو بخش سکتاہے اوردوسرے کو اس کا ثواب پہنچتاہے‘‘۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ج۴، ص۱۷۹)

۲۔ صاحب الدر المختار علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی حنفی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۱۰۸۸ھ)  لکھتے ہیں: ’’الْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا، لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ۔ وَأَمَّا قَوْله تَعَالَى - {وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى}[النجم: ۳۹]- أَيْ إلَّا إذَا وَهَبَهُ لَهُ كَمَا حَقَّقَهُ الْكَمَالُ‘‘۔ ’’اصولی بات یہ ہے کہ ہرشخص نے جس قسم کی بھی عبادت کی ہے اس کا ثواب دوسروں کو پہنچاسکتاہے۔ اگرچہ وہ اسکی نیت عبادت کی ادائیگی کے وقت ہی کیوں نہ کرلے۔کیونکہ اس کے دلائل(ایصال ثواب) ظاہر ہیں۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا ارشاد {لیس للانسان الاماسعی}کا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہی عبادت نفع دیتی ہے۔ لیکن اگرکوئی ثواب ہبہ کرے تواس سے یہ آیت خاموش ہے اوراحادیث کی وجہ سے اس کا بھی ثواب ملے گا‘‘۔ (رد المحتار على الدر المختارشرح تنویرالأبصار: ج۴، ص۱۰-۱۱)

۳۔ علامہ حصکفی رحمہ اﷲکی عبارت کی شرح میں مشہورحنفی عالم علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۱۲۵۲ھ) لکھتے ہیں: ’’(قَوْلُهُ بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ زِيَارَةِ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ - عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - وَالشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى، وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ كَمَا فِي الْهِنْدِيَّةِ ط وَقَدَّمْنَا فِي الزَّكَاةِ عَنْ التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُحِيطِ الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ‘‘۔ ’’مصنف کا (قول بعبادۃ ما) سے عام مراد ہے کہ خواہ وہ نمازہو روزہ ہو، صدقہ ہو، تلاوت ہو ذکر ہو، طواف ہو حج ہوعمرہ یااس کے علاوہ اورکچھ انبیاء علیہ السلام، شہداء اولیاء اورصالحین کی قبروں کی زیارت اورمردگان کی تکفین اورنیکی کی تمام اقسام ہو (اس کا ایصال ثواب کیاجاسکتاہے) جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے زکوٰۃ کے بارے میں ہم نے ماقبل میں فتاویٰ تاتارخانیہ کی عبارت محیط کے حوالہ سے نقل کی تھی کہ جوشخص نفل صدقہ کرتاہے اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین ومومنات کی جانب سے ایصال ثواب کی نیت کرلے کیونکہ ثواب سبھی کو پہنچے گااورصدقہ کرنے والے کے اجر میں سے بھی کچھ کمی نہ ہوگی‘‘۔ (رد المحتار على الدر المختارشرح تنویرالأبصار: ج۴، ص۱۰)

مسلک شافعیہ

شارح مسلم امام شرف الدین النووی رحمہ اﷲ (المتوفی: ۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: ’’وَأَمَّا قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ‘‘۔ ’’بہرحال قرآن کریم کی تلاوت تو امام شافعی کا مشہور مسلک یہی ہے کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچے گا لیکن ان کے بعض اصحاب نے کہاہے کہ تلاوت قرآن کریم کا ثواب میت کوپہنچتاہے‘‘۔ (شرح النووی علی مسلم: ج۱، ص۶۰؛ بحوالہ صحیح ریاض الصالحین: ص۳۹۱)

امام شرف الدین النووی رحمہ اﷲ شرح المہذب میں فرماتے ہیں کہ: ’’قبرستان جانے والے کےلئے مستحب ہے کہ جتناہوسکے تلاوت قرآن کرےاورپھردعاکرے۔ حضرت امام شافعیؒ سے اس کی تصریح موجودہے اوران کے اصحاب کابھی اس پراتفاق ہے‘‘۔ (المجموع شرح المہذب: ج۵، یستجب للرجال زیارۃ القبور، ص۳۱۱؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)

مسلک مالکیہ

فقہ مالکی کے مشہورامام ابن رشدالمالکی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۵۹۲ھ)لکھتے ہیں کہ: ’’ابْنُ رُشْدٍ فِي نَوَازِلِهِ ضَابِطُهُ: إنْ قَرَأَ الرَّجُلُ وَوَهَبَ ثَوَابَ قِرَاءَتِهِ لِمَيِّتٍ جَازَ ذَلِكَ وَحَصَلَ لِلْمَيِّتِ أَجْرُهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ‘‘۔ ’’میت کو ثواب پہنچانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی شخص تلاوت قرآن کرے اوراس کا ثواب میت کو ہدیہ کردے تویہ جائز ہے اورمیت کو اجر حاصل ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ‘‘۔ (منح الجلیل شرح مختصرالخلیل: ج۱، ص۳۴۳)

آپؒ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’بِالْجُمْلَةِ فَيَنْبَغِي أَنْ لَا يُهْمَلُ أَمْرُ الْمَوْتَى مِنْ الْقِرَاءَةِ فَلَعَلَّ الْوَاقِعَ فِي ذَلِكَ هُوَ الْوُصُولُ لَهُمْ وَلَيْسَ هَذَا حُكْمًا شَرْعِيًّا، وَكَذَا التَّهْلِيلُ يَنْبَغِي أَنْ يُعْمَلَ وَيَعْتَمِدَ عَلَى فَضْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَسَعَةِ رَحْمَتِهِ‘‘۔ ’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ مردوں کیلئے تلاوت کلام اللہ کو بالکل ترک نہ کیاجائے شاید کہ حقیقت اورواقعیت میں ان کو ثواب پہنچتاہے اوریہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ اسی طرح لاالہ الااللہ بھی کہناچاہئے اوراس سلسلے میں اللہ کے فضل اوراس کی وسیع رحمت پر بھروسہ کرناچاہئے‘‘۔(منح الجلیل شرح مختصرالخلیل: ج۱، ص۳۴۳)

مسلک حنابلہ

مشہور حنبلی عالم عبداﷲابن قدامہ مقدسی حنبلی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۶۲۰ھ) لکھتے ہیں: ’’فَصْلٌ: وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا، وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ، إنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘۔ ’’اورایک مسلمان کوئی سی بھی عبادت کرے اورا سکا ثواب دوسرے فوت شدہ مسلم کو بخش دے تواس سے میت کو نفع پہنچے گا اگراللہ نے چاہا‘‘۔ ( المغنی: ج۲، كتاب الجنائز، مسألة لا بأس أن يزور الرجل المقابر، فصل أي قربة فعلها وجعل ثوابها للميت نفعه ذلك، ص۵۱۹)

یہی بات مشہور حنبلی فقیہہ شمس الدین محمد بن مفلح المقدسی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۸۸۴ھ) نے بھی لکھی ہے: ’’(وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا) مِنْ دُعَاءٍ، وَاسْتِغْفَارٍ، وَصَلَاةٍ، وَصَوْمٍ، وَحَجٍّ، وَقِرَاءَةٍ، وَغَيْرِ ذَلِكَ (وَجَعَلَ ثَوَابَ ذَلِكَ لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ)‘‘۔ ’’اورکوئی بھی نیکی چاہے وہ دعا، استغفار، نماز، روزہ، حج، قرآن کی تلاوت یااورکچھ کرے اوراس کا ثواب مسلمان فوت شدہ کے نام کرے تواس کا نفع اس میت کو ہوگا‘‘۔ (المبدع فی شرح المقنع:ج۲، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت بعد موته، ص۲۵۴)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ اوران کے شاگرد ابن القیم رحمہ اﷲ کاشمار اگرچہ فقہائے حنابلہ میں ہی ہوتاہے اورہونابھی چاہئے لیکن چونکہ بعض لوگوں نے انہیں الگ طرح کی حیثیت دے دی ہےاوربعض لوگوں کے خیال میں یہ لوگ ائمہ اربعہ سے بھی بڑے مجتہدتھےلہٰذاان کےاقوال الگ سے ذکرکردیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے مقلدین کواگرکوئی غلط فہمی ہوتووہ بھی دورہوجائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ(المتوفی: ۷۲۸ھ)تلاوت کلام پاک سے ایصال ثواب کے تعلق سےایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’أَمَّا الصِّيَامُ عَنْهُ وَصَلَاةُ التَّطَوُّعِ عَنْهُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ عَنْهُ فَهَذَا فِيهِ قَوْلَانِ لِلْعُلَمَاءِ: أَحَدُهُمَا: يَنْتَفِعُ بِهِ وَهُوَ مَذْهَبُ أَحْمَد وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا، وَبَعْضِ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِمْ۔ وَالثَّانِي: لَا تَصِلُ إلَيْهِ وَهُوَ الْمَشْهُورُ فِي مَذْهَبِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ‘‘۔ ’’بہرحال میت کی جانب سے روزہ،نفل نماز اورقران کی تلاوت تواس سلسلے میں علماء کے دوقول ہیں۔ ایک قولیہ ہے کہ میت کواس سے فائدہ ہوتاہے اوریہ امام احمد امام ابوحنیفہ، دیگر اوربعض شافعیہ اوردیگر کا مسلک ہے۔دوسراقول یہ ہے کہ ان اعمال کا ثواب میت کو نہیں پہچتاہے اوریہی امام مالک اورامام شافعی کا مشہور مذہب ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوی: ج۲۴، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت وما لا ينفعه، مسألة القراءة للميت هل تصل إليه، ص۳۱۵)

ایک دوسرے مقام پر تلاوت کلام پاک سے میت کو ایصال ثواب کے مقبول ہونے پرجواب دیتےہوئے لکھتے ہیں: ’’لَيْسَ فِي الْآيَةِ وَلَا فِي الْحَدِيثِ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَنْتَفِعُ بِدُعَاءِ الْخَلْقِ لَهُ وَبِمَا يُعْمَلُ عَنْهُ مِنْ الْبِرِّ بَلْ أَئِمَّةُ الْإِسْلَامِ مُتَّفِقُونَ عَلَى انْتِفَاعِ الْمَيِّتِ‘‘۔ ’’آیت میں یاحدیث میں اس کا کوئی ذکرنہیں ہے کہ میت کو مخلوق کی دعاسے فائدہ نہیں ہوگا۔ یااس کی جانب سے جونیک کام کئے جاتے ہیں اس کا ثواب اس کو نہیں پہنچتاہے بلکہ ائمہ اسلام اس پر متفق ہے کہ نیک کام سے میت کو فائدہ ہوتاہے‘‘۔ (مجموع الفتاوی: ج۲۴، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت وما لا ينفعه، مسألة القراءة للميت هل تصل إليه، ص۳۰۶)

ابن تیمیہ رحمہ اﷲ اپنے موقف کوان الفاظ میں واضح کرتے ہوئےآگے لکھتے ہیں: ’’وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: {انْقَطَعَ عَمَلُهُ إلَّا مِنْ ثَلَاثٍ..} لَمْ يَقُلْ: إنَّهُ لَمْ يَنْتَفِعْ بِعَمَلِ غَيْرِهِ۔ فَإِذَا دَعَا لَهُ وَلَدُهُ كَانَ هَذَا مِنْ عَمَلِهِ الَّذِي لَمْ يَنْقَطِعْ وَإِذَا دَعَا لَهُ غَيْرُهُ لَمْ يَكُنْ مِنْ عَمَلِهِ لَكِنَّهُ يَنْتَفِعُ بِهِ‘‘۔ ’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ انسان اپنے عمال خیر کا ثواب میت کواللہ سے دعاکرکے میت کو بخش سکتاہے اورمیت کواس سے نفع ہوگااس کی قوی اورپوری امید ہے۔ بقیہ تمام معاملات تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہیں۔ چاہے تووہ کسی بھی عمل کوقبول کرلے اورچاہے توکسی کو رد کردے‘‘۔ (مجموع الفتاوی: ج۲۴، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت وما لا ينفعه، مسألة القراءة للميت هل تصل إليه، ص۳۱۲)

علامہ ابن القیم رحمہ (المتوفی: ۷۵۱ھ)بھی اپنے استاد کی تائید میں لکھتے ہیں: ’’وسر المسألة: أن الثواب ملك العامل، فإذا تبرع به وأهداه إلى أخيه المسلم أوصله الله إليه فما الذي خص من هذا ثواب قراءة القرآن وحجر على العبد أن يوصله إلى أخيه وهذا عمل سائر الناس حتى المنكرين في سائر الإعصار والأمصار من غير نكير من العلماء‘‘۔ ’’اس مسئلہ کا راز یہ ہے کہ ثواب عمل کرنے والے کی ملکیت ہے۔ لہٰذا جب وہ اس کو اپنے مسلمان بھائی کے لیے تبرع اور ہدیہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ وہ ثواب اس کو پہنچا دیتے ہیں۔ تو وہ کون سی چیز ہے کہ قرآن مجید کی قراءت کے ثواب کو اس اصول و قاعدہ سے خاص کیا جائے اور مومن بندہ پر اس چیز کی رکاوٹ ڈالی جائے کہ وہ اس کے ذریعے سے اپنے مسلمان بھائی کو ایصال ثواب نہیں کر سکتا۔ اس پر تو تمام لوگوں کا حتیٰ کہ خود منکرین کا بھی ہر زمانہ، علاقہ اور شہر میں علماء کی نکیر کے بغیر عمل ہوتا رہا ہے‘‘۔ (جامع الفقہ: ج۲، کتاب الجنائز، ص۵۴۸)

علماءِاہلحدیث (غیرمقلدین)

۱۔ غیرمقلدین حضرات کے یہاں ایک بڑانام قاضی شوکانی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۱۲۵۰ھ، ۱۸۳۹ء)کاہے۔ امام شوکانی رحمہ اﷲاپنی کتاب نیل الاوطار میں لکھتے ہیں: ’’وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي غَيْرِ الصَّدَقَةِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ هَلْ يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ؟ فَذَهَبَتْ الْمُعْتَزِلَةُ إلَى أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَيْهِ شَيْءٌ وَاسْتَدَلُّوا بِعُمُومِ الْآيَةِ وَقَالَ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ: إنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ، وَيَصِلُ ذَلِكَ إلَى الْمَيِّتِ وَيَنْفَعُهُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ انْتَهَى وَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَجَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ ثَوَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَذَهَبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَجَمَاعَةٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ إلَى أَنَّهُ يَصِلُ، كَذَا ذَكَرَهُ النَّوَوِيُّ فِي الْأَذْكَارِ وَفِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ لِابْنِ النَّحْوِيِّ: لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ عِنْدَنَا ثَوَابُ الْقِرَاءَةِ عَلَى الْمَشْهُورِ، وَالْمُخْتَارُ الْوُصُولُ إذَا سَأَلَ اللَّهَ إيصَالَ ثَوَابِ قِرَاءَتِهِ، وَيَنْبَغِي الْجَزْمُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ دُعَاءٌ، فَإِذَا جَازَ الدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ بِمَا لَيْسَ لَلدَّاعِي، فَلَأَنْ يَجُوزَ بِمَا هُوَ لَهُ أَوْلَى‘‘۔ ’’صدقہ کے علاوہ دیگر اعمال کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتاہے یانہیں معتزلہ کاخیال ہے کہ میت کو کسی قسم کا ثواب نہیں پہنچتاہے اوراس سلسلے میں انہوں نے آیت کے عموم سے استدلال کیاہے (لیس للانسان الاماسعی)اورکنزکی شرح میں مصنف نے کہاہے انسان کو اس بات کااختیار ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسروں کو بخش دے چاہے وہ نماز ہویاروزہ یاحض یاصدقہ یاتلاوت قران یااس کے علاوہ نیکی کے دیگر اقسام وانواع۔ ان تمام کاثواب میت کو پہنچتاہے اوراس کو فائدہ ہوتاہے اہل سنت کا مذہب یہی ہے۔ امام شافعیؒ اوران کے اصحاب کا مشہور مسلک یہ ہے کہ میت کو تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتاہے۔ جب کہ امام احمد بن حنبلؒ اورعلماءکی ایک جماعت اورامام شافعیؒ کے اصحاب کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ میت کو تلاوت قرآن کا ثواب پہنچتاہے۔ امام نوویؒ نے اذکار میں ایساہی ذکر کیاہے اورمنہاج کی شرح میں ابن نحویؒ نے لکھاہے کہ مشہور را ئے کے مطابق ہمارے نزدیک میت کو تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتاہے لیکن مختار مسلک یہ ہے کہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچتاہے جب وہ اللہ سے سوال کرے کہ وہ اس عمل کا ثواب فلانے کو پہنچادے۔ (میت کو ثواب پہنچنے کے سلسلے میں) اعتقاد جازم ہوناچاہئے۔ کیونکہ وہ دعاہے۔ توجب میت کیلئے ایسی دعاکی جاسکتی ہے جس میں دعاکرنے والے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے توایسی دعاکرنابدرجہ اولیٰ مناسب ہوگاجس میں دعاکرنے والے کے عمل کادخل ہے۔ (نیل الاوطار: ج۴، بَابُ وُصُولِ ثَوَابِ الْقُرَبِ الْمُهْدَاةِ إلَى الْمَوْتَى، ص۱۰۵)

امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اﷲیہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’الحديث: (اقرؤوا على موتاكم يس) وقد تقدم وبالدعاء من الولد لحديث: (أو ولد صالح يدعو له) ومن غيره لحديث: (استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت فإنه الآن يسئل) وقد تقدم۔ ولحديث: (فضل الدعاء للأخ بظهر الغيب) ولقوله تعالى {والذين جاؤوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان} ولما ثبت من الدعاء للميت عند الزيارة كحديث بريدة عند مسلم وأحمد وابن ماجه قال: (كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابر أن يقولوا قائلهم السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون نسأل الله لنا ولكم العافية) وبجميع ما يفعله الولد لوالديه من أعمال البر لحديث: (ولد الإنسان من سعيه)‘‘۔ ’’سورۃ یٰسٓ کا ثواب بھی میت کو ملتا ہے اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی، اس واسطے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ تم اپنے مردوں پر سورۃ یٰسٓ پڑھا کرو، اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد کرےیا کوئی اور، یہ بھی حدیث سے ثابت ہے حضور اکرمﷺنے فرمایا اپنے بھائی کےلیے مغفرت طلب کر و اور ثبات قدمی کی دعا کرو، اور باری تعالیٰ کے اس قول کی بنا پر (والذین جاؤ وامن بعد ھم) اور جو کارِ خیر اپنے والدین کےلیے کرے سب کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی (محنت) سے ہے۔ (نیل الاوطار: ج۴، بَابُ وُصُولِ ثَوَابِ الْقُرَبِ الْمُهْدَاةِ إلَى الْمَوْتَى، ص۱۰۶)

۲۔ مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اﷲ لکھتے ہیں: ’’ھو الموفق: متاخرین علمائے اہل حدیث میں سے محمد بن اسماعیل نے سبل السلام  میں مسلک حنفیہ کو ارجح بتایا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ قرأت ِ قرآن اور تمام عبادات ِ بدنیہ کا ثواب میت کو پہنچنا ازروئے دلیل کے زیادہ قوی ہے اور علامہ شوکانی نے بھی نیل الاوطارمیں اسی کو حق کہا ہے مگر اولاد کے ساتھ خاص کیا یعنی یہ کہا ہے کہ اولاد اپنے والدین کےلیے قرأت ِقرآن یا کسی عبادت بد نی کا ثواب پہنچانا چاہے تو جائز ہے کیونکہ اولاد کا تمام عمل خیر مالی ہو یا بدنی او ر بدنی میں قرات قرآن ہو یا نماز یا روزہ یا کچھ ا ور سب والدین کو پہنچتا ہے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۵۳۳)

مولانا امر تسری رحمہ اﷲاس کے آخر میں اپنی تحقیق پیش یوں پیش کرتے ہیں: ’’قرأت ِقرآن سے ایصال ثواب کے متعلق بعد تحقیق یہی فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی تلاوت کر کے ثواب میت کو بخشے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے بشرطیکہ پڑھنے والا خود بغرضِ ثواب بغیر کسی رسم ورواج کی پابندی کے پڑھے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۵۳۶)

۳۔ علامہ ابن النحوی رحمہ اﷲ شرح المنہاج میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک مشہور قول پر قرأت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ سے قرأت ِقرآن کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے، (یعنی یہ کہے یا اللہ اس قرأت کا ثواب فلاں میت کو تو پہنچا دے) اور اس طرح پر قرأت کا ثواب پہنچنے کا جزم (یقین) کرنا لائق ہے اس واسطے کو یہ دعا ہے پس جب کہ میت کےلیے ایسی چیز کی دعا کرنا جائز ہے جو داعی کے اختیار میں نہیں ہے تو اس کےلیے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا جو آدمی کے اختیار میں ہے اوریہ بات ظاہر ہے دعا کانفع میت کو بالاتفاق پہنچتا ہے اور زندہ کو بھی پہنچتاہے، نزدیک ہو خواہ دور اور اس بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کےلیے غائبانہ دعا کرے‘‘۔ (فتاویٰ نذیریہ: ج۱، ص۷۲۲؛ فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۵۳۵)

مندرجہ بالاتفصیلی دلائل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جمہور علماء کی رائے اس بارے میں کیاہےامام ابوحنیفہؒ اورامام احمد بن حنبلؒ اوران کے اصحاب کے موافق ہے۔ امام شافعیؒ اورامام مالک عدم جواز کے قائل ہیں لیکن امام شافعیؒ سے ایک قول جواز کابھی ملتاہےاور ان کے مسلک سے وابستہ علماء جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح ظاہریہ بھی جواز کے قائل ہیں۔ ظاہریہ سے گزرکر غیرمقلدین حضرات کے یہاں وقعت رکھنے والے، امام ابن تیمیہؒ،ابن القیمؒ اورامام شوکانیؒ بھی جواز کے قائل ہیں۔ فرقہ غیرمقلدین (اہلحدیث) کے وہ علماء جن پر ان کے مذہب کی بنیاد ہے جیسےقاضی شوکانیؒ، ابن النحویؒ، ثناء اللہ امر تسریؒ وغیرہ سب اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ ایصال ثواب بالقرآن جائز اور درست ہے اور اس کا انکار کرنا شریعت کے مقصد کے خلاف ہے۔