-->

یہ بیج محمد اقبال (مرحوم) کے نام سے صدقہ جاریہ ہے

Saturday, July 24, 2021

ذی الحجہ کےدنوں میں تکبیرات کہنےکی فضیلت

بسم الله الرحمن الرحیم

ذوالحجہ کے ابتدائی ۹ دنوں میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے،  بازاروں میں اوردوسری جگہوں پرتکبیرات کہنا مستحب عمل ہے۔

’’وجاء عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عن النبي ما مِن أيَّامٍ أَعظَمَ عِندَ اللهِ، ولا أَحَبَّ إلَيهِ مِنَ العملِ فيهِنَّ مِن هذِه الأَيَّامِ العَشرِ؛ فأَكثِرُوا فيهِنَّ مِنَ "التَّهليلِ"، وهو قَولُ: لا إلهَ إلَّا اللهُ "والتَّكْبيرِ"، وهو قَولُ: اللهُ أكبَرُ "والتَّحْميدِ"، وهو قَولُ: الحَمدُ للهِ"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلہ میں کوئی اور ایام ایسے نہیں ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو نیک عمل ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں اس لئے تم لوگ ان دنوں میں کثرت سے تہلیل ( لا لہ لا اللہ ) تکبیر ( اللہ اکبر ) اور تحمید ( الحمد للہ ) کا ورد کیا کرو‘‘۔ (مسند أحمد: ج۳، ص ۲۴۱، رقم الحدیث ۵۴۴۶؛ شعب الایمان ، ج: ٥ ، ص: ٣٠٨)

’’وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ، وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا۔ وَكَبَّرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ خَلْفَ النَّافِلَةِ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور تکبیریں بلند کرتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل جاتے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۲، كتاب العيدين، باب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ص ۱۳۲)

’’وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَبِّرُ فِي قُبَّتِهِ بِمِنًى فَيَسْمَعُهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ، فَيُكَبِّرُونَ وَيُكَبِّرُ أَهْلُ الأَسْوَاقِ، حَتَّى تَرْتَجَّ مِنًى تَكْبِيرًا۔ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكَبِّرُ بِمِنًى تِلْكَ الأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ، وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ، وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْكَ الأَيَّامَ جَمِيعًا۔ وَكَانَتْ مَيْمُونَةُ تُكَبِّرُ يَوْمَ النَّحْرِ۔ وَكُنَّ النِّسَاءُ يُكَبِّرْنَ خَلْفَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزَ لَيَالِيَ التَّشْرِيقِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ‘‘۔ ’’حضرت عمررضی اﷲعنہ منیٰ میں اپنے خیمہ میں تکبیریں بلند کرتے جسے مسجد کے لوگ سنتے اور تکبیریں کہتے اور بازار والے بھی تکبیریں کہناشروع کردیتے حتیٰ کہ منیٰ تکبیروں سے گونج اٹھتا۔ حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ  اِن دِنوں میں منیٰ میں تکبیریں کہتے اور ان کی تکبیریں کہنے کا یہ سلسلہ نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں اور چلتے پھرتے، سارے دِنوں میں جاری رہتا۔ اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اﷲعنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مرودوں کے ساتھ تکبیرکہاکرتی تھیں‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۲، كتاب العيدين، باب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ص ۱۳۳)

ہرمسلمان مردوعورت پر۹ذی الحجہ کی فجرکی نماز سے ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک ہرفرض نماز کے بعدایک مرتبہ یہ تکبیرات پڑھنا واجب ہے۔

’’حدثنا أبوبکر، قال حدثنا حسین بن علي، عن زائدة، عن عاصم، عن شقیق، وعن علي بن عبد الأعلیٰ، فعَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قال: كَانَ عَلِيٌّ رضي الله عنه يُكَبِّرُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَيُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرِ‘‘۔ ’’جناب شقیق رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اﷲعنہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعدتکبیر کہتے، ایامِ تشریق کے آخر تک نماز عصر تک اورعصر کے بعد تکبیر کہتے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۱، رقم الحدیث ۱۱۱۳؛ مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، ص۳۱۸، رقم ۵۶۷۷)

’’فحدثني أبوبکر محمد بن أحمد بن بالویہ ثنا عبد اﷲ بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا یحیی بن سعید ثنا الحکم بن فروخ عن ابن عباس أنه کان یکبر عن غداة عرفة إلی صلوة العصر من آخر أیام التشریق‘‘۔ ’’جناب حکم بن فروخ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کے آخر تک، عصر کی نماز تک تکبیر پکارتے تھے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۷، رقم الحدیث ۱۱۱۴)

’’فأخبرناہ أبویحیٰی أحمد بن محمّد السمرقندي ثنا مُحمّد بن نصر ثنا یحیٰی بن یحیٰی أنبأ هیثم عن أبي جناب عن عُمیر بن سعید قال:قدم علینا ابن مسعود فکان یکبر من صلوٰة الصبح یوم عرفة إلیٰ صلوٰة العصر من آخر أیام التشریق‘‘۔ ’’جناب عمیر بن سعید رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ابن مسعود رضی اﷲعنہ تشریف لائے، پس وہ یومِ عرفہ کے دن صبح کی نما زسے ایامِ تشریق کے آخر، نمازِ عصر تک تکبیرات پکارتے تھے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۷، رقم الحدیث ۱۱۱۵)

’’فأخبرني أبوبکر محمد بن أحمد بن بالویہ ثنا عبداﷲ بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا محمد بن جعفر ثنا شعبة بن الحجاج قال سمعت عطاء یحدث عن عبید بن عمیر قال: کان عمر بن الخطاب یکبر بعد صلوٰة الفجر من یوم عرفة إلی صلوٰة الظھر من آخر أیام التشریق‘‘۔ ’’جناب عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اﷲعنہ عرفہ کے دن نمازِ فجر کے بعد سے تکبیر کہتے، یہاں تک کہ وہ ایام تشریق کے آخر تک، ظہر کی نماز تک تکبیر کہتے تھے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج۱،  کتاب الصلوٰۃ العیدین، صفحہ ۲۰۷، رقم الحدیث ۱۱۱۲)

’’حضرت علی اورحضرت عمار رضی اﷲعنہما روایت کرتے ہیں کہ: رسول اﷲﷺفرضی نمازوں میں بسم اﷲالرحمٰن الرحیم بلندآواز سے پڑھاکرتےتھےاور آپﷺفجرکی نمازمیں دعائے قنوت پڑھتے اورعرفہ کے دن فجرکی نماز سے تکبیرات تشریق شروع کرتے اورایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز میں ختم کردیتے‘‘۔ (المستدرک اللصحیحین: ج۱، کتاب الصلوٰۃ العیدین، ص۶۰۵-۶۰۶، رقم الحدیث ۱۱۱۱)

’’حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن أبي بكار، عن عكرمة، ابن عباس رضي الله عنهما: أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، لاَ يُكَبِّرُ فِي الْمَغْرِبِ: اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲبن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عرفہ کے دن نماز فجر کی صبح سے تشریق کے آخری دن تک تکبیر کہتے تھے، اور مغرب میں نہیں کہتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، ص۳۱۸، رقم ۵۶۹۲)

’’من طريق زُهَيْر، عن أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهُ: «كَانَ يُكَبِّرُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَيَقْطَعُ صَلَاةَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، يُكَبِّرُ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ»، قَالَ: "وَكَانَ يُكَبِّرُ: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔’’حضرت عبداﷲرضی اﷲعنہ عرفہ کی صبح، فجر کی نماز کے بعد تکبیر کہتے، پھر وہ برابر کہتے رہتے تھے یہاں تک کہ امام ایام تشریق کے آخر ی دن عصر کی نماز پڑھاتا، پھر وہ عصر کے بعد تکبیر پکارتے‘‘۔(مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، رقم ۵۶۹۷)

’’حدثنا أبو الأحوص عن أبي إسحاق عن الأسود قال: كَانَ عَبْدُ اللهِ يُكَبِّرُ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ مِنَ يوم النَّحْرِ، يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لاَ إلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔ ’’حضرت اسودرحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ: حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ یوم عرفہ کی نماز فجرسے یوم نحرکی نماز عصرتک تکبیرات کہاکرتےتھے۔ جن کے کلمات یہ تھے: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لاَ إلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ‘‘۔(مصنف ابن أبي شيبة: ج۴، ص۳۱۶، رقم ۵۶۷۹)

مردوں کے لئے اونچی آواز میں تکبیرکہنا مستحب ہے، جیساکہ حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور ابوہریرہ ؓسے ثابت ہے جبکہ عورتیں یہ تکبیرات آہستہ آواز میں کہیں گی۔


Tuesday, July 20, 2021

ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت

بسم الله الرحمن الرحیم

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَالْفَجْرِ  وَلَيَالٍ عَشْرٍ‘‘۔ ’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی‘‘۔ [سورۃ الفجر: ۱،۲]

امام ابن کثیررحمہ اﷲاس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتےہیں: ’’الليالي العشر: المراد بها عشر ذي الحجة‘‘۔ ’’اس سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں‘‘۔ ( تفسير ابن كثير: ج۳، تفسير سورة الفجر، ص۶۸۰)

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ‘‘۔ ’’أیام معلوم دِنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں‘‘۔ [سورۃ الحج: ۲۸]

’’قال شعبة وهشيم عن أبي بشر عن سعيد عن ابن عباس رضي الله عنهما: الأيام المعلومات: أيام العشر‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں: ''أیام معلومات سے مراد ذوالحجہ کے ہی دس دن ہیں''‘‘۔ (صحیح تفسير ابن كثير: ج۵، تفسير سورة الحج، تفسير قوله تعالىٰ " ليشهدوا منافع لهم ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم"، ص۴۲۰)

’’وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ أَيَّامُ الْعَشْرِ، وَالأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ: (اس آیت) ''اوراﷲتعالیٰ کاذکرمعلوم دنوں میں کرو '' میں أیام معلومات سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں اورایام معدودات سے مرادأیام تشریق ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۲، كتاب العيدين، باب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ص ۱۳۲)

’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ "مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَمَلِ فِي هَذِهِ"۔ قَالُوا وَلاَ الْجِهَادُ قَالَ "‏وَلاَ الْجِهَادُ، إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَىْءٍ"‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ان دنوں (ذوالحجہ)کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپﷺنے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۲، كتاب العيدين، باب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، رقم الحدیث ۹۶۹)

’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، هُوَ الْبَطِينُ وَهُوَ ابْنُ عِمْرَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ الْعَشْرِ"۔ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "وَلاَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ"۔ وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَجَابِرٍ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد بھی (اسے نہیں پا سکتا)؟ آپﷺنے فرمایا: جہاد بھی نہیں، مگر ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور لوٹا ہی نہیں‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۱، كتاب الصوم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ، رقم الحدیث ۷۵۷؛ سنن ابی داؤد: ج۲، كتاب الصوم، باب فِي صَوْمِ الْعَشْرِ، رقم الحدیث ۲۴۳۷)

’’حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، - وَهَذَا لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ - عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُحَىٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "إِنَّ أَعْظَمَ الأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ"۔ قَالَ عِيسَى قَالَ ثَوْرٌ وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي۔ قَالَ وَقُرِّبَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَدَنَاتٌ خَمْسٌ أَوْ سِتٌّ فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ فَلَمَّا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا - قَالَ فَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ خَفِيَّةٍ لَمْ أَفْهَمْهَا فَقُلْتُ مَا قَالَ - قَالَ "مَنْ شَاءَ اقْتَطَعَ"‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺسےروایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے پھر یوم القر ہے، اس دن رسول اللہﷺکے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں، تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھنے لگی کہ آپﷺ نحر کی ابتداء اس سے کریں، جب وہ گر گئیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکا تو میں نے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: جو چاہے اس میں سے گوشت کاٹ لے‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۲، كتاب المناسك، باب فِي الْهَدْىِ إِذَا عَطِبَ قَبْلَ أَنْ يَبْلُغَ، رقم الحدیث ۱۷۶۵)

’’حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُرَى الْجِهَادَ أَفْضَلَ الْعَمَلِ، أَفَلاَ نُجَاهِدُ قَالَ "لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ"‘‘۔ ’’ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد افضل اعمال میں سے ہے پھر ہم (عورتیں) بھی کیوں نہ جہاد کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا لیکن سب سے افضل جہاد مقبول حج ہے جس میں گناہ نہ ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳،كتاب الجهاد والسير، باب فَضْلُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، رقم الحدیث ۲۷۸۴)

’’حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، بِهَذَا۔ وَعَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم سَأَلَهُ نِسَاؤُهُ عَنِ الْجِهَادِ فَقَالَ "نِعْمَ الْجِهَادُ الْحَجُّ"‘‘۔ ’’ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے آپﷺ کی ازواج مطہرات نے جہاد کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج بہت ہی عمدہ جہاد ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳،كتاب الجهاد والسير، باب جِهَادِ النِّسَاءِ، رقم الحدیث ۲۸۷۶)

قربانی کا جانورذبح کرنے کا سنت طریقہ

بسم الله الرحمن الرحیم

جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کو بائیں کروٹ پر لٹانا سنت عمل ہے، یعنی ہمارے ملک کےحساب سےجانور کا سر والا حصہ جنوب کی طرف اور دُم والاحصہ شمال کی طرف ہو، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔

جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹالیں تو پہلے درج ذیل  آیت پڑھنا بہتر ہے:

"إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ

اور ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا اگر یاد ہو تو پڑھ لیں:

"اللّٰهُم َّمِنْكَ وَ لَكَ"  پھر  ’’بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ‘‘۔

 کہہ  کر ذبح کریں، اور ذبح کرنے کے بعد اگر یہ دعا یاد ہو تو پڑھ لیں:

"اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام

اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کر رہے ہوں تو "مِنِّيْ" کی جگہ "مِنْ"  کے بعد اس شخص کا نام لے لیں۔

’’حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَوْمَ عِيدٍ بِكَبْشَيْنِ فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا "إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ"‘‘۔ ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلے کی طرف کیا تو فرمایا: «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين اللهم منك ولك عن محمد وأمته» "میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہان کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم ہے اور سب سے پہلے میں اس کے تابعداروں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے، اور تیرے ہی واسطے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول فرما"‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۴، كتاب الأضاحي، باب أَضَاحِيِّ رَسُولِ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم، رقم الحدیث ۳۱۲۱)

عرفہ کے دن کی دعا کی فضیلت

بسم الله الرحمن الرحیم

’’حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدِينِيُّ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"۔ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ‘‘۔ ’’رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام نے کی وہ یہ ہے "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب فِي دُعَاءِ يَوْمِ عَرَفَةَ، رقم الحدیث ۳۵۸۵)